دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں .
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
زندہ ہوں مگر ذیست کی لذت نہیں باقی
ہر چاند کی ہوں ہوش میں ہوشیار نہیں ہوں
اس خانہ ہستی سے گزر جاؤنگا بے لوث
سایہ ہوں فقط نقش دیوار نہیں ہوں
افسردہ ہوں عبارات سے دوا کی نہیں حاجت
غم کا مجھے یہ ضعف ہے بیمار نہیں ہوں
وہ گل ہوں خزاں نے جسے برباد کیا ہے
الجھوں کسی دامن سے میں وہ خار نہیں ہوں
یا رب مجھے محفوظ رکھ اس بت کے ستم سے
میں اس کی عنایت کا طلبگار نہیں ہوں
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ