لب فریاد

لب فریاد

تو جو چاہے بھی تو صیاد نہیں ہونے کو ،
لب ہمارے لب فریاد نہیں ہونے کو .

کوئی اچھی بی خبر کان میں آئے یا رب ،
ایسی خبروں سے تو دل شاد نہیں ہونے کو .

تو رہے ہم سے خفا کتنا ہی چاہے لیکن ،
ہم کبھی تجھ سے تو نشاد نہیں ہونے کو .

کار دنیا کو ہیں درکار ہماری عمریں ،
کار دنیا سے تو آذاد نہیں ہونے کو .

ان گنت جاگتے چہرے گئے مٹی کے تلے ،
اب نئے ظلم تو ایجاد نہیں ہونے کو .

تا قیامت وہی ایک نام رہے گا آباد ،
ہم کبھی مستقل آباد نہیں ہونے کو .

خاک ہو جائے گا یہ مقدر اپنا ،
ہم مگر وہ ہیں کے برباد نہیں ہونے کو .

چاہے نمرود ہو ، فرعون ہو یا کے ہو یزید ،
صاحب شجرہ اولاد نہیں ہونے کو .

اس کے کوچے میں میاں خاک اڑاتے کیوں ہو ،
تم سے مجنوں تو اسے یاد نہیں ہونے کو .

وہ زمانے کے عدیل ہم بھی تھے اس کی پہچان ، ،
وہ زمانے تو اسے یاد نہیں ہونے کو ~ . . .

Posted on Feb 16, 2011