شکوے تُو ہیں اتنے     
   
  ایسے ٹوٹے ہیں تمناؤں کے پندار کے بس ،  
  میں نے جھیلے ہیں محبتوں میں وہ آزار کے بس ،  
   
  ایک دھماکے میں زمانے میرے ہاتھوں سے گئے ،  
  اس قدر تیز ہوئی وقت کی رفتار کے بس ،  
   
  تُو کبھی رکھ کے ہمیں دیکھ تو بازار کے بیچ ،  
  اس طرح ٹوٹ کے آئینگے خریدار کے بس ،  
   
  کل بھی صدیوں کی مسافت پہ تھے دونوں ،  
  درمیان آج بھی پڑتی ہے وہ دیوار کے بس ،  
   
  یہ تو اک ضد ہے کے " محسن " میں شکایت نا کروں ،  
  ورنہ شکوے تو ہیں اتنے میرے یار کے بس . . . . . ! ! ! 
Posted on Feb 16, 2011

سماجی رابطہ