کیوں میرے لب پہ وفاؤں کا سوال آ جائے
عین ممکن ہے اُسے خُود ہی خیال آ جائے
ہِجر کی شام بھی سینے سے لگا لیتا ہوں
کیا خبر یونہی کبھی شامِ وصال آ جائے
گھر اِسی واسطے جنگل میں بدل ڈالا ہے
شاید ایسے ہی اِدھر میرا غزال آ جائے
دھنک اُبھرے سرِ افلاک کڑی دھُوپ میں بھی
دشتِ وحشت میں اگر تیرا خیال آ جائے
کوئی تو اُڑ کے دِہکتا ہوا سُورج ڈھانپے
گرد ہی سر پہ گھٹاؤں کی مثال آ جائے
چھوڑ دے وہ مجھے تکلیف میں ممکن تو نہیں
اور اگر ایسی کبھی صورتِ حال آ جائے
اُس گھڑی پوچھوں گا تجھ سے یہ جہاں کیسا ہے
جب تیرے حسن پہ تھوڑا سا زوال آ جائے
کچھ نہیں ہے تو بُھلانا ہی اُسے سیکھ عدیم
زندگی میں تُجھے کوئی تو کمال آ جائے
Posted on May 19, 2011
سماجی رابطہ