اب کیسی پردہ داری ، خبر عام ہو چکی
ماں کی ردا تو دن ہوئے نیلم ہو چکی
اب آسْمان سے چادر شب آئے بھی تو کیا
بے چادری زمین پہ الزام ہو چکی
اجڑے ہوئے دیار پہ پھر کیوں نگاہ ہے
اس کشت پہ تو بارش اکرام ہو چکی
سورج بھی اس کو ڈھونڈ کے واپس چلا گیا
اب ہم بھی گھر کو لوٹ چلیں شام ہو چکی
شملے سنبھالتے ہی رہے مصلحت پسند
ہونا تھا جس کو پیار میں بدنام ہو چکی
آنکھیں ہیں اور صبح تلک تیرا انتظار
مشعل با دست رات تیرے نام ہو چکی
Posted on May 27, 2011
سماجی رابطہ