اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملے
جیسے سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملے .
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہیں خرابوں میں ملے .
غم دنیا بھی غم یار میں شامل کرلو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملے .
نا خدا ہے نا میرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انسان ہے تو کیوں اتنے حجابوں میں ملے .
اب نا وہ میں ، نا وہ تو ، نا وہ ماضی ہے ’ فراز ’
جیسے دو سائے تمنا کے سرابوں میں ملے .
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ