اب وہ نوید ہی نہیں، صوتِ ہزار کیا کرے
نخلِ اُمید ہی نہیں، ابرِ بہار کیا کرے
دن ہو تو مہر جلوہ گر، شب ہو تو انجم و قمر
پردے ہی جب ہوں پردہ در روئے نگار کیا کرے
عشق نہ ہوتو دل لگی، موت نہ ہو تو خود کشی
یہ نہ کرے تو آدمی، آخر ِ کار کیا کرے
اہلِ ہوس بھی ہیں بہت، خیر نظر نہ آئیے
یہ تو مگر بتائیے، عاشقِ زار کیا کرے
موت نے کس امید پر، سونپ دئے ہیں بحر و بر
مُشتِ غُبار ہے بشر، مُشت غُبار کیا کرے
شمع بھی ہے رہینِ یاس، پھول بھی ہیں اُداس اُداس
کوئی نہیں ہے آس پاس، شمع ِ مزار کیا کرے
گریۂ شرم واہ واہ، فردِ عمل ہوئی تباہ
دیکھئے اِک یہی گناہ، روزِ شمار کیا کرے
اپنے کئے پہ بار بار، کون ہو روز شرمسار
مل گیا عذرِ پائیدار، قول و قرار کیا کرے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ