اے نئے سال بتا تجھ میں نیا کیا ہے
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے
روشنی دن کو وہی تاروں بھر رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے ہر بات وہ ہی
آسْمان بدلہ ہے نا افسوس بدلی ہے زمین
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں
اگلے برسوں کی طرح ہونگے قرینے تیرے
کسے معلوم نہیں باران مہینے تیرے
جنوری ، فیبریری ، اور مارچ میں پڑے گی سردی
اور اَپْرَیْل ، مئى ، جون میں ہوگی گرمی
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی ، شام نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں سال کئی ! !
اور بھی بے سبب دیتے ہیں کیوں لوگ مبارکبادیں ! !
غالباً بھول گئے وقت کی کڑوی یادیں !
تیری آمد سے گھٹتی عمر جہاں میں سب کی ! !
فیض نے لکھی ہے یہ نظم نرالے ڈھنگ کی . . . !
Posted on Jan 04, 2012
سماجی رابطہ