ایک منافق سے پیار کر بیٹھے .
سرحد عقل پار کر بیٹھے .
اپنے اسلاف ایک منافق پر
کس قدر اعتبار کر بیٹھے .
اُونچے محلوں کو دیکھ کر مفلس
خود کو کیوں اشکبار کر بیٹھے .
روشنی کے نقیب سے کہہ دو
ظلمتوں سے نا ہار کر بیٹھے .
دامن صبر چھوٹ گیا ہم سے
خود کو بے اختیار کر بیٹھے .
غیر کو پربہار دیکھ کے ہم
آرزو بہار کر بیٹھے . . . . !
Posted on Jun 05, 2012
سماجی رابطہ