اپنے الجھے ہوئے دن رات بھی سلجھا نا سکے

اپنے الجھے ہوئے دن رات بھی سلجھا نا سکے
اتنے بے فیض ہیں خود اپنے ہی کام آ نا سکے

سایہ ذیست کو ڈھلتے ہوئے دیکھا لیکن
تپتے صحرا پے کوئی نقش خوشی پا نا سکے

دل بھی مچلا تھا نگاہیں بھی پلٹ جاتی تھیں
ان کی دہلیز پے لیکن یہ قدم جا نا سکے

دل کی تسخیر ہی دراصل فتح مندی ہے
ان کو پا کر بھی مگر ہم انہیں اپنا نا سکے

داستان کہنے کی کچھ وقت نے مہلت ہی نا دی
لب كشاء ہو نا سکے دل انہیں دکھلا نا سکے

کھلتی کلیوں کے تبسم کی حقیقت کیا ہے
بکھرے پھولوں سے جو پوچھا تو وہ سمجھا نا سکے

Posted on Jul 04, 2011