عذاب ڈر بدری سے نکالنا چاہتے ہیں

عذاب ڈر بدری سے نکالنا چاہتے ہیں
اب اس کے خیمہ خوشبو میں رہنا چاہتے ہیں


صدا گل کی طرح ، موج صباء کی طرح
تیری گلی سے کیسے دن گزارنا چاہتے ہیں


تلاش رزق میں بھٹکی ہوئی تھکان کے بعد
پرندے اپنے گھروں کو پلٹنا چاہتے ہیں


ہمیں نا دیکھ زمانے کی گرد آنکھوں سے
تجھے خبر نہیں ہم تجھ کو کتنا چاہتے ہیں


وفا ہے شرط تو پھر اپنے درمیان اب بھی
یہ لوگ کس لیے دیوار رکھنا چاہتے ہیں


امیر شہر سلامت ، مصاحباں سمیٹ
ہم اہل صبر اُس نے مکرنا چاہتے ہیں

Posted on Feb 16, 2011