بنام طاقت کوئی اشارہ نہیں چلے گا
اُداس نسلوں پہ اب اجاڑا نہیں چلے گا
ہم اپنی دھرتی سے اپنی ہر سمت خود تلاشیں
ہماری خاطر کو ستارہ نہیں چلے گا
حیات اب شام غم کی تشبیہ خود بنے گی
تمہاری زلفوں کا استعارہ نہیں چلے گا
ہمارے جذبے بغاوتوں کو تراشتے ہیں
ہمارے جزبوں پہ بس تمہارا نہیں چلے گا
ازل سے قائم ہیں دونوں اپنی ضدوں پہ محسن
چلے گا پانی مگر کنارہ نہیں چلے گا
Posted on Jun 17, 2011
سماجی رابطہ