برگ آوارہ

برگ آوارہ

دیکھ کے موسم سَرما اور یہ سوکھے پتے
جسے فرقت نے جلایا وہ شجر یاد آیا

برگ آوارہ کو ہے اپنے ٹھکانے کی تلاش
مجھے وہ شہر وہ گلیاں وہ گھر یاد آیا

شاخ سے ٹوٹ کے یوں روئے کے دیکھا نا گیا
میں بھی رونے لگی جب اپنا سفر یاد آیا

اکثر سوچا کے چلو بھول کے دیکھا جائے
بہت کوشش کی بھلانے کی مگر یاد آیا

دل کی ضد ہے جو مقدر میں ہے وہ آج ملے
جو لفظ تم نے پڑھایا تھا صبر یاد آیا

Posted on Feb 16, 2011