بے رخی تم نے بھی کی ، عذر زمانہ کر کے 
 ہم بھی محفل سے اٹھ آئے ہیں ، بہانہ کر کے 
 
 کتنی باتیں ، کے نا کہنا تھیں ، وہ کہہ بھیجی ہیں 
 اب پشیماں ہیں ، قاصد کو روانہ کر کے 
 
 جانتے ہیں ، وہ تنک خوں ہے ، سو اپنا احوال 
 ہم سنا دیتے ہیں ، اوروں کا فسانہ کر کے 
 
 کیا کہیں ، کیا ہے ان آنکھوں میں ، کے رکھ دیتی ہیں 
 ایک اچھے بھلے انسان کو دیوانہ کر کے 
 
 کوئی ویرانہ ہستی کے خبر کیا لاتا 
 خود بھی ہم بھول گئے ، دفن خزانہ کر کے 
 
 آنکھ مصروف نظارہ تھی ، تو ہم خوش تھے فراز 
 اس نے کیا ظلم کیا ، دل میں ٹھکانا کر کے . . . . ! 
Posted on Aug 02, 2012

سماجی رابطہ