چراغ جان کو سپرد ہوا بھی اس نے کیا


چراغ جان کو سپرد ہوا بھی اس نے کیا
پھر اپنے آپکو وقف دعا بھی اسنے کیا

میرے دکھوں کی تلافی بھی اس کے پیار نے کی
شعور غم سے مجھے آشْنا بھی اس نے کیا

دیے سے جلتے رہے دل میں اسکی یادوں کے
شب سفر کو بہت خوشنما بھی اس نے کیا

کیا اسی نے مجھے عرض حال پر مجبور
یہ سوز حرف و حکایت عطا بھی اس نے کیا

اسی نے زہر دیا مجھ کو خود شناسی کا
مجھے شکار عذاب انا بھی اس نے کیا

میں اپنی چپ کے جزیرے میں قید تھا ساجد
مجھے تو واقف سعوت سدا بھی اس نے کیا

Posted on Oct 10, 2012