چوٹ گہری لگی ، زخم آئے بہت
اب کے یوں تھا کے ہم مسکرائے بہت
جس نے پردیس میں یاد رکھا مجھے
مجھ کو اسکا پتہ بھول جائے بہت
ہر نئے عشق کا اپنا معیار تھا
تجربے ہم نے بھی آزمائے بہت
جس میں شب بھر کو سونے کی فرصت ملے
ہم غریبوں کو بس وہ سرائے بہت
اک تیری یاد روشن رہی دیر تک
آندھیوں میں دیے جھلملائے بہت
اک تیری دید کے شوق میں رات بھر
ہم سے الجھے دریچوں کے سائے بہت
اجنبی شہر کے ہر نئے موڑ پر !
کچھ پُرانے نگر یاد آئے بہت
عکس کوئی بھی ٹھہرا نا محسن کہیں
دائرے پانیوں پر بنائے بہت
Posted on Jun 20, 2011
سماجی رابطہ