دشمن بھی پیش ا?ئے ہیں دلدار کی طرح

دشمن بھی پیش آئے ہیں دلدار کی طرح
نفرت ملی ہے ان سے مجھے پیار کی طرح

کیسے ملیں گے چاہنے والے بتائیے
دنیا کھڑی ہے راہ میں دیوار کی طرح

وہ بیوفائی کر کے بھی شرمندہ نا ہوئے
سولی پے ہم چڑھے ہیں گنہگار کی طرح

طوفان میں مجھ کو چھوڑ کر وہ لوگ چل دیے
ساحل پے تھے جو ساتھ میں پٹوار کی طرح

چہرے پے حادثوں نے لکھیں وہ عبارتیں
پڑھتا ہے ہر کوئی مجھے اخبار کی طرح

دشمن بھی ہو گئے ہیں مسیحا صفت جمال
ملتے ہیں ٹوٹ کر وہ گلے یار کی طرح ،

Posted on Feb 16, 2011