ایک ننھی سی معصوم چڑیا ملی تھی مجھے چہکتے ہوئے
ایک ننھی سی معصوم چڑیا ملی تھی مجھے چہکتے ہوئے
آنکھیں شاید اسکی تھکی نہیں تھی محبت کرتے ہوئے ،
پوچھا میں نے تیری شوخ پلکیں ہے کس درد کے بوجھ تلے
کیوں سمٹ رہی ہے تیری آواز تیری دھڑکنیں سسکتی ہوئے ،
یہی ڈال تھی جب دیکھا تھا تیرا آشیانہ میں نے پہلے
کہاں گیا وہ گھروندہ تیرے پیا کی خوشبو سے مہکتے ہوئے ،
یہ سن کے ایک تھکا ہوا سا آنْسُو جھلک آیا اسکی آنکھوں میں
خاک میں مل گیا وہ اسکے چہرے پر آوارہ سفر کرتے ہوئے ،
کہا اسنے کے میں نے محبتوں سے پالا تھا اس شاخ کی ہر ڈالی کو
آج اسی شاخ نے فنا کیا میرے ارمانوں کو جو رہے بلکتے ہوئے ،
کہا اسنے کے دیکھ میرے پنھک جو بھرتے تھے اڑان میرے پیا کے ساتھ
آج وہی پنھک ہیں زخمی کچھ پروازوں سے زخمی روتے ہوئے ،
کہا اسنے ، کے محبتوں نے یہ حشر کیا ہے میرے حالاتوں کا
کے ہر سانس میری رہ گئی احسانوں کی نمائش بنتے ہوئے .
ایک ننھی سی معصوم چڑیا ملی تھی مجھے چہکتے ہوئے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ