غم ہجر یار کب تک رہوں بےقرار کب تک ؟
میرے دل بتا یہ مجھ کو کروں اس کو پیار کب تک ؟
یہ ہجوم نامرادی غم بےشمار کب تک ؟
تیری بات کا بھروسہ تیرا انتظار کب تک ؟
شب ہجر کی اداسی کہیں مجھ کو لے نا ڈوبے !
میری دھڑکنوں پہ ہو گا تیرا اختیار کب تک ؟
نہ ہی آج کا بھروسہ ، نہ ہی کل کی ہیں اُمیدیں
تیری راہ گزر تکوں میں ، شب وصل یار کب تک ؟
جہاں دیکھیئے اندھیرا ! جہاں سوچیے اداسی !
راہ زندگی میں یا رب ! رہے گا غبار کب تک ؟
میں نکل پڑا تھا تنہا ، لیے سارے رنج دل پر
مگر پھر خیال آیا کے سہوں یہ بار کب تک ؟
میری آنکھیں تک رہیں ہیں تیری واپسی کی راہیں
تو ہی اب بتا دے مجھ کو کروں انتظار کب تک ؟ !
مجھے یوں تو دے گیا ہے وہ دلاسا جاتے جاتے
مگر اب یہ سوچتا ہوں کروں اعتبار ک
ب تک ؟
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ