گزارہ

گزارہ

پلٹ کر پھر کبھی اس نے پکارا ہی نہیں ہے
وہ جس کی یاد سے دل کو کنارہ ہی نہیں ہے

کبھی وہ جگنوں کو مٹھیوں میں قید کرنا
مگر اب تو ہمیں یہ سب گوارہ ہی نہیں ہے

یہ خواہش تھی کے ہم کچھ دور تک تو ساتھ چلتے
ستاروں کا مگر کوئی اشارہ ہی نہیں ہے

بہت سے زخم کھائے دل نے آخر طے کیا ہے
تمھارے شہر میں اپنا گزارا ہی نہیں ہے

Posted on Feb 16, 2011