ہائے ، وہ شخص    
 
 سلسلہ اور بھی کچھ غم کا بڑھایا جائے ، 
 اس بیابان کو سمندر سے ملایا جائے ، 
 
 جس میں ہم لوگ چراغوں کی طرح جلتے ہیں ، 
 آؤ وہ شہر زمانے کو دکھایا جائے ، 
 
 اپنے قبضے میں تو زخموں کی بڑھی دولت ہے ، 
 کیوں نا پھر وقت کا سب قرض چکایا جائے ، 
 
 دل میں اس قدر تیرے درد کو رکھ لیتا ہوں ، 
 جیسے گھر میں کسی مجرم کو چھپایا جائے ، 
 
 مجھ سے خود اپنا پتہ پوچھ رہا تھا اک دن ، 
 ہائے ، وہ شخص بھلائے نا بھلایا جائے ، 
 
 میں کوئی راز کی طاہر نہیں ہوں " جامی " ، 
 بند کمرے میں جسے لا کے جلایا جائے . . . . . . ! ! ! ! 
Posted on Feb 16, 2011

سماجی رابطہ