ہم بھی تمہیں یاد آۓ کہ نہیں

اس شہر کے وفا کے راستوں میں
جو اندھیارے پی لیتے ہیں
ان روشنیوں کے نرغے میں
جو ہونٹوں کو سی لیتے ہیں
ہم بھی تمہیں یاد آۓ کہ نہیں

‎جب بارش ہوئی گاؤں پر
‎اور ٹھنڈی میٹھی ہوا چلی‎
‎تاروں بھری رات کی کھڑکی پر
‎جب پروائی نے دستک دی
‎ہم بھی تمہیں یاد آۓ کہ نہیں
ہم بھی تمہیں یاد آۓ کہ نہیں

جب پیغام تم کو کسی نے لکھا
کوئی حرف دعا، کوئی حرف وفا
کسی یاد کا بھولا نقش کوئی
جب کاغذ پہ تحریر ہوا
ہم بھی تمہیں یاد آۓ کہ نہیں


‎سچ ہے اتنے برسوں تک
‎تم بھادوں ساون یاد آئے
‎ہم جہاں گئے،‏ ‏ ہم جہاں رہے‎
‎تم دھڑکن دھڑکن یاد آۓ
‎ہم بھی تمہیں یاد آۓ کہ نہیں

Posted on Nov 05, 2012