حُسنِ شعار میں مجھے ڈھلنے نہیں دیا
اُس نے کسی بھی گام سنبھلے نہیں دیا
حائل رہِ حیات میں حسّاسیت رہی
اِس دِل نے دو قدم مجھے چلنے نہیں دیا
رکھا بصد خلُوص رگ و پے میں مستقل
لمحہ کوئی بھی درد کا ٹلنے نہیں دیا
کچھ وہ بھی چاہتا تھا یہاں مستقل قیام
میں نے بھی اُس کو دِل سے نکلنے نہیں دیا
محفل کو جو دیا ترے اندازِ داد نے
ایسا مزہ تو میری غزل نے نہیں دیا
اِک بار اعترافِ محبت پہ عمر بھر
ہم نے اُسے بیان بدلنے نہیں دیا
دریا ہزار دِل میں بپھرتے رہے مگر
آنکھوں میں کوئی اشک مچلنے نہیں دیا
طاہر عدیم، اپنا دِیا کیا جلائے گا؟
جس نے مرا چراغ بھی جلنے نہیں دیا
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ