جب اُسے چاہا تو چاہا ہر طرح کے حال میں
ہر طرح کا حسن دیکھا اُس کے خد و خال میں
چل رہی ہے یہ زمیں، زنداں کی چکی کی طرح
پس رہے ہیں لوگ کیا کیا، اِس کے ماہ و سال میں
اِنتہاؤں پر رہے ہم، درمیاں ٹھہرے نہیں
آسماں کے اوَج پر یا گھر گئے پاتال میں
یہ بھی کیا انصاف ہے، اے منصفِ وصل و فراق
اُس کی آدھی بھی جھلک دیکھی نہ پورے سال میں
اِبتدأ سے حشر تک سب تین پنجروں میں ہیں قید
کوئی ماضی، کوئی مستقبل میں، کوئی حال میں
میں نے سوچا تھا کسی کو میں دھوکا دوں عدیم
شکل اپنی ہی نظر آئی سبھی اشکال میں
Posted on May 19, 2011
سماجی رابطہ