جینا پڑتا ہے کبھی ظرف سے کمتر ہو کر

جینا پڑتا ہے کبھی ظرف سے کمتر ہو کر
بھیک دریائوں سے مانگی ہے سمندر ہو کر

ہاں یہ تصویر کبھی بات کیا کرتی تھی
دیکھتی رہتی ہیں آنکھیں جسے پتھر ہو کر

عمر بھر میرے تصور نے تراشا تھا جسے
اب وہ سایہ کہی گم ہو گیا پیکر ہو کر

میرا اس عشق میں نقصان ہوا ہے کتنا
خود سے محروم ہوا تجھ کو میسر ہو کر

میرے احساس پہ غالب ہی رہی اک وحشت
مشکلیں کم نا ہوئیں رنج کا خون گر ہو کر

اس سے بہتر ہے کے اک بار اُتَر جا دل میں
کیوں الجھتا ہے ، میرے زخم سے ، نشتر ہو کر

میرا دکھ یہ ہے ، کے سب شاد سمجھتے ہیں مجھے
اس اذیت سے گزرا ہوں ، سخن ور ہو کر . . . !

Posted on May 29, 2012