جدھر بھی دیکھتا ہوں
جدھر بھی دیکھتا ہوں تنہائی نظر آتی ہے
آپ کے انتظار میں ہر شام گزر جاتی ہے
میں کیسے کروں گلہ دل کے زخموں سے حضور
آنْسُو چھلکتے ہیں میری صورت نکھر جاتی ہے
توڑ دیے ہیں میں نے اپنے گھر کے سارے آئینہ
میری روح میرا ہی چہرہ دیکھ کے ڈر جاتی ہے
رو کے ہلکے ہو لیتے ہیں ذرا سی تیری یاد میں . . .
ذرا سی نا مرادوں کی طبیعت سدھر جاتی ہے
اثر کرتی یقینا اگر چھو جاتی ان کے دل کو لیکن
افسوس کے آہ میری فضاؤں ہی میں بکھر جاتی ہے
مے کدے میں جب بھی ذکر آتا ہے تیرے نام کا
شام کی پی ہوئی سر شام ہی اُتَر جاتی ہے
کبھی آ کے میرے زخموں سے مقابلہ تو کر
اے خوشی تو منہ چھپا کے کدھر جاتی ہے
تجھے انہی کانٹوں پے چل کے جانا ہوگا
ان کے گھر کو بس یہی ایک رہگزر جاتی ہے
جدھر بھی دیکھتا ہوں
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ