جو فریب میں نے کھائے
جو فریب میں نے کھائے تجھے رازدان سمجھ کر
اسے کیسے بھول جاؤں اک داستان سمجھ کر
نا مٹاؤ ٹھوکروں سے یہ مزار ہے کسی کا
ذرا رحم کر خدارا اسے اک نشان سمجھ کر
ارے او جلانے والے یہ تیرا ہی تھا نشیمن
جسے تُو نے پھونک ڈالا میرا آشیاں سمجھ کر
نا بُجھا چراغ ظالم ابھی دور ہے سویرا
کہیں لو لپٹ نا جائے تجھے بدگماں سمجھ کر
مجھے غور سے نا دیکھو وہی نا مراد گل ہوں
جسے تُو نے روند ڈالا مجھے بے زبان سمجھ کر
اے شکیل کیا بتاؤں وہ کرے گئے جو جفائیں
اُنہیں میں نے دل دیا تھا اک مہرباں سمجھ کر
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ