کہا یہ درد نے اک بار پھر ابھرتے ہوئے
کے تھوڑا وقت تو لگتا ہے زخم بھرتے ہوئے
پھر اس کنارے پہ لوٹوں گا کب خدا جانے
میں سوچتا رہا دریا کو پار کرتے ہوئے
ہمیں یہ تیری اداسی بھلی نہیں لگتی
سکوت شب سے کہا جگنوؤں نے ڈرتے ہوئے
میں بجھ سا جاتا ہوں منظر یہ جب بھی دیکھتا ہوں
کسی نشیب میں اک سائے کو اترتے ہوئے
میری رگوں میں بھی اترے ہیں کچھ خزاں موسم
مجھے بہار نے دیکھا نہیں بکھرتے ہوئے
میں بے نیاز ہی گزرا تھا ، شاد ، راہوں سے
عبور ہو گئیں کچھ منزلیں گزر تے ہوئے . . . !
Posted on Dec 28, 2011
سماجی رابطہ