کل میں انہی رستوں سے گزرا تو بہت رویا
سوچی ہوئی باتوں کو سوچا تو بہت رویا
دل میرا ہر اک شائے کو آئینہ سمجھا ہے
ڈھلتے ہوئے سورج کو دیکھا تو بہت رویا
آسان تو نہیں اپنی ہستی سے گزر جانا
اترا جو سمندر میں تو بہت رویا
جو شخص نا رویا تھا تپتی رہوں میں
دیوار کے سائے میں بیٹھا تو بہت رویا
جس موج سے ابھارا تھا اس موج پا کیا گزری
صحرا میں وہ بادل کا ٹکڑا تو بہت رویا
ہم تیری طبیعت کو خورشید نہیں سمجھے
پتھر نظر آتا تھا رویا تو بہت رویا . . . !
Posted on Jul 24, 2012
سماجی رابطہ