میں گہری نیند سو جاؤں
گل - ای - امید کی ٹہنی کی پیشانی سے
قسمت کے ستارے کی طرح ٹوٹے
اے آخری پتے … .
مجھے تم کو تمھاری موت کا پارْسا
بھری آنکھوں سے دینا ہے
مگر ، اک درد میرا بھی … .
اگر تم سن سکو تو … . ؟
ایک لمحے کو سنو …
تمہارا بھی سفر اس سمت ہے اب سے
جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی
جہاں جشن چراغاں
جشن خوشبو ہو …
خزاں موسم کے نوحے ہوں
یا ماتم ہو
سکون میں فرق بالکل بھی نہیں آتا …
سنو … … … . . ؟
اس نیند نگری میں
میرے پیارے بھی سوتے ہیں
انہیں کہنا …
میں تھکن سے چور ہوں بالکل
مجھے خاموشیاں اب راس آتی ہیں
میری آنکھوں کی جھیلیں خشک ہیں کب سے
فقط اب حسرتوں کی کنکریں … … … .
پلکوں میں چبھتی ہیں … … .
میری سانسیں ، میرے دل سے الجھتی ہیں
مجھے اب جاگنا ، بے خواب رہنا
درد دیتا ہے … …
میرے ہر چہرے کو تکتی ہوں
کسی کی آنکھ میں
اب عکس … . . میرا رک نہیں پاتا
بھرے آکاش پر میرے لیے
کوئی ستارا اب نہیں روشن
نظر تھک کر زمین کی اور تکتی ہے
انہیں کہنا کے …
میں ان کے بنا اب بہت تنہا ہوں
اگر جو ہو سکے تو
اس شہر پناہ کی سر زمین ، کی مہرباں
بانہوں میں تھوڑی سی پناہ میرے لیے
ان سے جو بن پائے … .
تو میں بھی نیند نگری میں چلی آؤں
میری دکھتی ہوئی آنکھوں کو
بے خوابی کے زندان سے رہائی ہو
میں گہری نیند سو جاؤں
میں گہری نیند سو جاؤں
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ