میں کوئی حرفِ غلط ہوں کہ مٹایا جاؤں
جب بھی آؤں تری محفل سے اٹھایا جاؤں
ایک ٹوٹا ہوا پتّہ ہوں ٹھکانہ معلوم
جانے کب تک میں فضاؤں میں اڑایا جاؤں
میری تخلیق کا مقصود یہی ہے شاید
آسمانوں سے زمینوں پہ گرایا جاؤں
پھر کوئی موت کی لوری کوئی الجھا ہوا گیت
میں بہت دیر کا جاگا ہوں سلایا جاؤں
اتنا بیزار نہ ہو مجھ سے کہ وہ تارا ہوں
شاخِ مژگاں پہ سرِ شام سجایا جاؤں
جانے کس جرم کی پاداش میں ہر روزصبا
ہائے حالات کی سولی پہ چڑھایا جاؤں
Posted on Jan 22, 2013
سماجی رابطہ