کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاﺅں گا
میں تو دریا ہوں، سمندر میں اتر جاﺅں گا
تیرے پہلو سے جو اٹھوں گا تو مشکل یہ ہے
صرف اک شخص کو پاﺅں گا جدھر جاﺅں گا
اب ترے شہر میں آﺅں گا مسافر کی طرح
سایۂ ابر کی مانند گزر جاﺅں گا
تیرا پیمانِ وفا راہ کی دیوار بنا
ورنہ سوچا تھا کہ جب چاہوں گا، مر جاﺅں گا
چارہ سازوں سے الگ ہے مرا معیار کہ میں
زخم کھاﺅں گا تو کچھ اور سنور جاﺅں گا
اب تو خورشید کو ڈوبے ہوئے صدیاں گزریں
اب اُسے ڈھونڈنے میں تا بہ سحر جاﺅں گا
زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیم
بجھ تو جاﺅں گا مگر صبح تو کر جاﺅں گا
Posted on May 14, 2011
سماجی رابطہ