میرے آنسو میرے اندر گرتے ہیں
جیسے دریا بیچ سمندر گرتے ہیں
تیری یادیں وہ طوفان اٹھاتی ہیں
اک اک کر کے سارے منظر گرتے ہیں
کتنی لہریں شعروں میں ڈھل جاتی ہیں
سوچ کے پانی میں جب پتھر گرتے ہیں
ہم نے ٹھوکر کھا کر چلنا سیکھا ہے
اور ہیں وہ جو ٹھوکر کھا کر گرتے ہیں
رونے والے! یہ تجھ کو معلوم نہیں
تیرے آنسو میرے دل پر گرتے ہیں
تم بس اس کا روگ لگا کر بیٹھے ہو
سپنوں کے یہ گھر تو اکثر گرتے ہیں
کات رہا ہے عاطف کوئی آنکھوں میں
تکیے پر یہ خواب جو اکثر گرتے ہیں
Posted on May 24, 2011
سماجی رابطہ