میری سنگت میں مت بیٹھو

میری سنگت میں مت بیٹھو

میری سنگت میں مت بیٹھو
میں تنہائی پہنتا ہوں
اُداسی کے اجاڑ آنگن میں چنتا ہوں
میں اپنی ذات میں اُجڑے ہوئے گاؤں کا میلا ہوں
میرے یارو !
تمہارے ساتھ رہ کر بھی ، اکیلا ہوں
میری سنگت میں مت بیٹھو
تمہیں تو خود سنورنا ہے
تمہاری خواہشوں کے بام و در پہ
روشنی کے پھول کھلنے ہیں
تمہیں لکھنا ہے ، اپنی سانس کی گرمی سے
نیندوں کا سفر نامہ
میری سنگت میں مت بیٹھو
کہ میں پتھر کا ہوں
کہ میں محرومیوں کے شہر کا باسی
میری قسمت اُداسی ، کم لِباسی ، نا شناسی ہے
میری سنگت میں مت بیٹھو
مجھے ملنے سے کتراؤ
خود اپنے دل کو سمجھاؤ
میرے نزدیک مت آؤ
میرے دل میں اندھیرا ہے
اندھیرا صرف میرا ہے

Posted on Feb 16, 2011