بارشوں کے موسم میں ،
وقت کے اندھیروں میں ،
میں نے اس سے پوچھا تھا
چھوڑ تو نا جاؤ گی ؟
ہاتھ تھام کر اس نے ،
کان میں یہ بولا تھا ،
کیسے چھوڑ سکتی ہوں ؟
تم تو جان ہو میری ،
اور آج ایسا ہے ،
وقت کی تمازت میں ،
وحشتوں کے موسم میں ،
میں نے اس سے پوچھا ہے ،
چھوڑ کر ہے جانا تھا ،
مسکراتی گلیوں میں ،
آس کیوں دلائی تھی ؟
پیاس کیوں جگائی تھی ؟
میرے ان سوالوں پر ،
نا وہ چونکی نا وہ ٹھری ،
چلتے چلتے اتنا کہا
موسموں کے کھیل ہیں سب . . . . !
Posted on Dec 10, 2011
سماجی رابطہ