محبتوں میں ہر ایک لمحہ وصال ہوگا یہ طے ہوا تھا

محبتوں میں ہر ایک لمحہ وصال ہوگا یہ طے ہوا تھا
بچھڑ کے بھی ایک دوسرے کا خیال ہوگا یہ طے ہوا تھا

وہی ہوا نا بدلتے موسم میں تم نے ہم کو بھلا دیا ہے
کوئی بھی رُت ہو نا چاہتوں کو زوال ہوگا یہ طے ہوا تھا

یہ کیا کے سانسیں اُکھڑ گئی ہیں سفر کے آغاز سے ہی یارو
کوئی بھی تھک کر نا رستے میں نڈھال ہوگا یہ طے ہوا تھا

جدا ہوئے ہیں تو کیا ہوا پھر یہی تو دستور زندگی ہے
جدائیوں میں نا قربتوں کا ملال ہوگا یہ طے ہوا تھا

چلو کے فیضان کشتیوں کو جلا دین گُم نام ساحلوں پر
کے اب یہاں سے نا واپسی کا سوال ہوگا یہ طے ہوا تھا . . . !

Posted on Jan 13, 2012