مجھ سے کہتا ہے کبھی دل میں ملال آتے ہیں
کیسے کیسے میرے دشمن کو سوال آتے ہیں
یہ جو ہم روتے ہیں چھپ کر کبھی تنہائی میں
رفتہ رفتہ تجھے آنکھوں سے نکال آتے ہیں
ہم محبت پہ بھی احسان کوئی رکھتے نہیں
نیکیاں کرتے ہیں دریاؤں میں ڈال آتے ہیں
بس اسی خوف سے سوئے نہیں اک مدت سے
حجر ملتا ہے اگر خواب وصال آتے ہیں
پھول کھل جائیں تو اس شخص سے کم کم ملنا
ایسے موسم میں محبت پہ زوال آتے ہیں
Posted on Aug 24, 2012
سماجی رابطہ