نا پوچھ پیار میں کیا کیا نہیں کیا میں نے
بس اس کے سامنے سجدہ نہیں کیا میں نے
وہ منتظر ہی نہیں تھا میری راہوں کا
یہ سوچ کے کبھی وعدہ نہیں کیا میں نے
قسم ہوئی ہے مکمل اپنے مرنے کی
سفر تھا ذیست کا ، پورا نہیں کیا میں نے
بڑے خلوص سے ملنے لگا میں پھر اسے
پرانی باتوں کا شکوہ نہیں کیا میں نے
قلم کی نوک کو تر تو لہو سے کر ڈالا
کوئی بھی شعر ادھورہ نہیں کیا میں نے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ