نا یقین وجود پہ کاڑ کر

نا یقین وجود پہ کاڑ کر
نا ردا یاس میں آؤں گا
جو لباس تجھ کو پسند ہو
میں اسی لباس میں آؤں گا

مجھے رائگاں نا تلاش کر
میں سفر میں تھا
میں سفر میں ہوں
کبھی نور حرف کی راہ سے
دل خود شناس میں آؤں گا

مجھے دوسروں سے طلب نا کر
مجھے خود سے مانگ کے دیکھنا
میں برنگ عکس گوہر نما
کف التماس میں آؤں گا

میری جستجو نے جو دم لیا
میرے بے کرن نے کہا مجھے
کے میں آگہی سے ہوں ماورہ
نا حد حواس میں آؤں گا

مجھے اب تو شوق سے بھول جا
یہی ناز کم تو نہیں کے میں
تیری چاہتوں کی کتاب کے
کسی اقتباس میں آؤں گا

کبھی مجھ کو محسن نئے دنوں
کی تپش میں ڈھونڈے گا وہ کہیں
کبھی یاد اسکو گئے دنوں
کے سفر کی باس میں آؤں گا

Posted on Oct 17, 2011