نظر میں زخم تبسم چھپا چھپا کے ملا
خفا تو تھا وہ مگر مجھ سے مسکرا کے ملا
وہ ہمسفر کے میرے ظنز پے ہنستا تھا بہت
ستم ظریف مجھے آئینہ دکھا کے ملا
میرے مزاج پے حیران ہے زندگی کا شعور
میں اپنی موت کے ( کے ) او اکثر گلے لگا کے ملا
میں اس سے مانگتا کیا خون بہا جوانی کا
کے وہ بھی آج مجھے اپنا گھر لٹا کے ملا
میں جسکو ڈھونڈ رہا تھا نظر کے رستے میں
مجھے ملا بھی تو ظالم نظر جھکا کے ملا
میں زخم زخم بدن لے کے چل دیا
وہ جب بھی اپنی چھیڑے پر غم سجا کے ملا . . .
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ