نشان تک نا ملینگے

نشان تک نا ملینگے

نشان تک نا ملیں گے میری وفا کے اسے ،
کے میں نے راہ بدل دی ہے آزما کے اسے !

کبھی نا حرف کوئی اسکی سادگی کا کھلا ،
ورق ورق پڑھا میں نے دل لگا کے اسے !

جو سب کا حال ہوا تھا وہ میرا حال ہوا ،
بنی نا بات کوئی بات بھی سنا کے اسے !

مجھے یقین ہے وہ لوٹ کر بھی آئیگا ،
مگر اداس ہوں اب راسته دکھا کے اسے !

Posted on Feb 16, 2011