سوچتی تھی
اس سے بچھڑ کے نا جی سکوں گی
مر جاؤں گی
وہ آواز نا سن پائی تو
اور کیا سن پاؤں گی
اس کا ساتھ نا مل پایا تو
کیسے جی پاؤں گی ؟ ؟
وہ چہرہ نا دیکھ سکی تو
روشنی کیسے پاؤں گی ؟
سوچتی تھی
اس سے بچھڑ کے کیسے جی پاؤں گی
خود کو کیسے بہلاؤں گی
لیکن دیکھو
اس سے دور ہوئے مجھ کو کتنے موسم بیت گئے
وہ چہرہ دور ہے اب مجھ سے
وہ الفاظ نہیں ملتے اب
لیکن پھر بھی
آنکھوں کو بینائی سلامت اب بھی ہے
لفظوں کا ذخیرہ اب بھی ہے
اب بھی سانسوں کا وہی تسلسل
وقفے وقفے سے جاری ہے
اب بھی بنتی سنورتی ہوں
اب بھی ہنستی گاتی ہوں
اب بھی عمدہ کپڑے پہن کے
سب سے ملنے جاتی ہوں
اب بھی اکثر تنہائی میں
ملن کے نغمے گاتی ہوں
اب بھی سب کچھ چل ہی رہا ہے
اب بھی جیون گزر رہا ہے
لیکن کیا ہے
ایک لڑکی جو میرے اندر بستی تھی
تیری مدد سے
میں نے اسکو مار دیا ہے . .
پاگل لڑکی مر گئی
Posted on May 05, 2011
سماجی رابطہ