پلٹ کے آنکھ نم کرنا، مجھے ہرگز نہیں آتا
گئے لمحوں کا غم کرنا، مجھے ہرگز نہیں آتا
سرِ تسلیمِ خم کر کے بہت کچھ مل تو سکتا ہے
سرِ تسلیمِ خم کرنا، مجھے ہرگز نہیں آتا
محبت ہو تو بے حد ہو، جو نفرت ہو تو بے پایاں
کوئی بھی کام کم کرنا، مجھے ہرگز نہیں آتا
میں دہشت گرد ہوتا تو اُسے برباد کر دیتا
مگر اس پر ستم کرنا، مجھے ہرگز نہیں آتا
میں اِک اِک بوند کے پیچھے، نہ بھاگا ہوں نہ بھاگوں گا
سمندر یوں بہم کرنا، مجھے ہرگز نہیں آتا
عدیم انساں کی آنکھوں میں تو دُنیا دیکھ سکتا ہوں
سبو کو جامِ جم کرنا، مجھے ہرگز نہیں آتا
Posted on May 19, 2011
سماجی رابطہ