پامال ہو گئے تیرے در پر پڑے ہوئے

پامال ہو گئے تیرے در پر پڑے ہوئے
جیسے شجر سے ٹوٹ کے پتے گرے ہوئے

ناقدری زمانہ ہمیں معلوم ہے مگر
یاروں سے پھر فضول کے شکوے گلے ہوئے

محرومیوں کے بوجھ سے گردن جھکی ہوئی
ناکامیوں کی گرد سے چہرے اٹے ہوئے

شاید تمہیں خبر ہو بتاؤ وہ قافلے
ٹھہرے کہاں تھے بے سر و سامن چلے ہوئے

جانے کدھر چلے گئے سارے وہ ہمسفر
ہم راہگزر میں رہ گئے تنہا کھڑے ہوئے . . . .

Posted on Sep 23, 2011