قریہ جان میں کوئی پھول کھلنے آئے

قریہ جان میں کوئی پھول کھلنے آئے
وہ میری دل پہ نیا زخم لگانے آئے

میری ویران دریچوں میں بھی خوشبو جاگے
وہ میری گھر کے در و بام سجانے آئے

اس سے اک بار تو روٹھوں میں اسی کی مانند
اور میری طرح سے وہ مجھ کو منانے آئے

اسی کچھ ہی میں کئی اس کے شناسا بھی تو ہیں
وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے

اب نا پوچھوں گی میں کھوئے ہوئے خوابوں کا پتہ
وہ اگر آئے تو کچھ بھی نا بتانے آئے

ضبط کی شہر پناہوں کی میری مالک خیر
غم کا سیلاب اگر مجھ کو بہانے آئے . . . !

Posted on Aug 01, 2012