رنجش ہی سہی دِل ہی دُکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مُجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
اَب تک دِلِ خُوش فہم کو ہیں تُجھ سے اُمیدیں
یہ آخری شمعیں بھی بُجھانے کے لیے آ
کُچھ تو میرے پِندارِ مُحبت کا بھرم رکھ
تُو بھی کبھی مُجھ کو منانے کے لیے آ
پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو
رسم و رہِ دُنیا ہی نِبھانے کے لیے آ
کِس کِس کو بتائیں گے جُدائ کا سبب ہم
تُو مُجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ
مانا کے مُحبت کا چُھپانا ہے مُحبت
چُپکے سے کِسی روز جتانے کے لیے آ
اِک عمر سے ہوں لذّتِ گِریہ سے بھی مِحروم
اے راحتِ جاں مُجھ کو رُلانے کے لیے آ
Posted on Jan 10, 2013
سماجی رابطہ