روح کے زخم بہت گہرے ہیں
پیاس بہتی ہے لہو بن کے انہی زخموں سے
درد کے تار بناتی ہیں عجب نقش رفو کاری کے
آگ ہی آگ رگ و پے میں اُتَر جاتی ہے
آدمی اپنے ہی شعلوں سے سلگ اٹھتا ہے
زندگی موت کے معنوں سے الجھ جاتی ہے
اور پھر یونہی اچانک
کوئی چپکے سے نظر ڈالتا ہے زخموں پر
آنکھ بھر دیتی سب نقش رفو کاری کے
ہونٹ برساتے ہیں کچھ حرف تسلّی ان پر
ہاتھ بن جاتے ہیں مرہم
درد مٹ جاتا ہے لہجے کے اثر سے یکدم
پیاس بجھتی ہے تو بھر جاتے ہیں سب روح کے زخم
Posted on Aug 27, 2011
سماجی رابطہ