رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا

رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا
وہ کیوں گیا ہے یہی بھی بتا کر نہیں گیا
یوں ایل جی رہا ہے جیسے ابھی لوٹ آئے گا
آتے ہوئے چراغ بجھا کر نہیں گیا
شاہد وہ مل ہی جائے . . . . . . . .
مگر جستجو ہے شرط
وہ اپنے نقش پا کو مٹتا کر نہیں گیا
ہر بار وہ مجھ کو چھوڑ گیا اضطراب میں
لوٹے گا کب . . . . . . . . . . ؟
کبھی وہ بتا کر نہیں گیا
رہنے دیا نا اسنے کسی کام کا مجھے
اور خاک میں بھی مجھ کو ملا کر نہیں گیا

Posted on Feb 16, 2011