سلسلہ اور بھی کچھ غم کا بڑھایا جائے
اس بیاباں کو سمندر سے ملایا جائے
جس میں ہم لوگ چراغوں کی طرح جلتے ہیں
آؤ وہ شہر زمانے کو دکھایا جائے
اپنے قبضے میں تو زخموں کی دولت ہے
کیوں نا پھر وقت کا سب قرض چکایا جائے
دل میں اس طرح تیرے درد کو رکھ لیتا ہوں
جیسے گھر میں کسی مجرم کو چھپایا جائے
مجھ سے خود اپنا پتا پوچھ رہا تھا اک دن
ہائے وہ شخص بھلائے نا بھلایا جائے
میں کوئی راز کی تحریر نہیں ہو جامی
بند کمرے میں جسے لا کے جلایا جائے . . . !
Posted on Jul 17, 2012
سماجی رابطہ