سوچتا ہوں آگہی کے اس سفر نے کیا دیا
خون جلانے کے سوا میرے ہنر نے کیا دیا
میری شاخوں سے لپٹ کر آسْمان تک چھو لیا
اور اب بیلیں یہ کہتی ہیں . . شجر نے کیا دیا
جس نے اپنی ہر خوشی گھر کی خوشی پر وار دی
ایک وحشت کے علاوہ اس کو گھر نے کیا دیا
کب وہ شامل ہو سکا میرے کسی احساس میں
ساتھ چلنے کے سوا اک ہم سفر نے کیا دیا
عمر کے اندھے سفر میں کون رکھتا ہے حساب
منزلوں سے کیا ملا ہے ، رہنے کیا دیا
آرزوئیں کس قدر کرتی ہیں دل پر اعتبار
آرزؤں کو دل نا معتبر نے کیا دیا
شاد دل میں ہر طرف اب خواہشوں کا شور ہے
میں نے اپنی اک تمنا کو اُبھارنے کیا دیا
Posted on Jul 19, 2011
سماجی رابطہ